اب کبھی بھی نہ پیوں گا بار ہا توبہ کیا
جب دکھا جا م و سبو اس کا سدا الٹا کیا
عشق نے سکھلا دیا کہ بیوفائی بھی ہے کچھ
میرے ہی محبوب نے پورا نہیں وعدہ کیا
گردش ایام کا رخ جس نے پہچانا نہیں
اپنے حق میں یہ نہیں اس قوم نے اچھا کیا
ترک کر دیں وہ جفائیں یہ توقع ہے فضول
ان حسینوں نے بتاؤ ہے بھلا کس کا کیا
غیر کے جب ہو لئے وہ کیوں شکایت تم کو ہے
دل ہے ان کا تو نے حامد شکوہ بجا کیا
dont worry things will settle down soon
ReplyDelete